Table of Contents
افسانے کی اقسام
اس آرٹیکل میں ہم افسانہ نگاری کے فن سے متعلق، افسانے کی چند رائج اقسام کو دیکھیں گے اور ان کا تعارف پیش کریں گے۔ افسانہ نگاری ایک باقاعدہ فن ہے، اس فن پر فن کار کی جانب سے استعمال کی گئی تکنیک کا براہی راست اثر پڑتا ہے۔ لیکن افسانے کی اقسام ہی سب سے زیادہ، پیش کیے جانے والے مدعا کی سمت کا تعین کرتی ہیں۔ ذیل میں افسانے کی اقسام میں سے چند ایک کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائٹ سے جڑے رہیے۔Ilmu علموبابا
معاشرتی و رومانی افسانہ
معاشرتی و رومانی افسانہ میں افسانہ نگار کسی سماجی مسئلہ، شادی بیاہ کی رسوم، جہیز، طلاق، تعداد ازدواج اور افلاس سے پیدا ہونے والے مسائل کو افسانہ کا موضوع بناتے ہیں۔ یا پھر عشق و محبت کا کوئی پہلو افسانہ کا موضوع بنا کر رومانی کہانی تخلیق کی جاتی ہے۔ افسانہ نگاری کی ابتداء میں زیادہ تر اسی قسم کے افسانے لکھے گئے خاص طور پر خواتین افسانہ نگار قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے رومانی اور معاشرتی افسانے زیادہ لکھے۔
مزاحیہ افسانہ
مزاحیہ کردار جس کی بدولت تمام کا تمام ماحول مضحکہ خیز صورت اختیار کر جاتا ہے۔ افسانہ نگار کے لیے مزاحیہ کردار کو نمایاں کرنے کے لیے ایک مناسب ماحول پیش کرنا از بس ضروری ہے۔ تاہم جب ایک بار اس انوکھے کردار کی تخلیق ہو جاتی ہے تو پھر اس کا سرسری تذکرہ ہی افسانہ میں موجود ساری سنجیدگی کو ختم کر دیتا ہے۔ ایک مزاحیہ کردار کو قدم قدم پر انوکھے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کے افسانہ میں مزاحیہ کردار تخلیق کر کے ایسے واقعات تحریر کیے جاتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ ہنسی ہنسی میں زندگی کی نا ہمواریوں ،اپنے عہد کے انسانوں کے غیر معتدل رویوں کو پیش کرتے ہیں۔
اردو میں دو قسم کے مزاحیہ افسانہ نگار ہیں۔
اول وہ جنہوں نے باقاعدہ مزاحیہ افسانہ نگاری کی اور اپنی تخلیقات اسی عنوان کے تحت اخبار و رسائل میں شائع کرائیں نیز مزاحیہ افسانوں کے مجموعے بھی شائع کیے۔ ان جواں مردوں میں چودھری محمد علی ردولوی، ظریف دہلوی، سید رفیق حسین، عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، کرشن چندر، وجاہت علی سندیلوی، شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، مسعود مفتی، جمال درانی وغیرہ شامل ہیں۔
دوم ایسے تخلیق کاروں کی قسم ہے جنہوں نے اپنے مزاحیہ افسانے، مضامین کے مجموعوں میں ضم کر دئیے اور اس طرح ان کی شناخت دشوار ہو گئی۔
تاریخی افسانہ
تاریخ کے کسی واقعہ کو افسانہ کا موضوع بنا کر بعض تاریخی یا غیر تاریخی کرداروں اور واقعات پر مشتمل جو افسانہ تحریر کیا جاتا ہے اسے تاریخی افسانہ کہتےہیں۔الیاس سیتا پوری کی بعض لکھی جانے والی کہانیاں،تاریخ اور رومان کے اشتراک سے قاری کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرواتی ہیں۔
کرداری افسانہ
بعض اوقات افسانہ نویس کہانی کا تانابانا کسی ایک کردار کے گرد بنتا ہے۔ افسانے کے کردار ایک ہوں یا ایک سے زائد افسانہ نویس مختصر الفاظ میں ان کا تعارف کرواتا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی سیرتوں کو ابھارتا چلا جاتا ہے۔ کہانی کے واقعات کرداروں کے عمل اور ردعمل سے بڑھتے پھیلتے ہیں۔
نظریاتی افسانہ
ہر مصنف زندگی کے بارے میں کوئی نہ کوئی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ وہ اس نقطہ نظر کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے بھی کہانی کا سہارا لیتا ہے۔ افسانہ نگار اپنے نظریہ کو کرداروں کی کشمکش یا واقعات کے عمل اور رد عمل کے ذریعے سے پیش کرتا ہے۔
علامتی افسانہ
اگر افسانہ نگار زندگی کے مسائل کو کھل کر بیان کرنے کی بجائے اشارے کنایے سے کام لیں اور ایسی علامتوں کا استعمال کریں جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہوں تو ایسے افسانے کو علامتی افسانہ کہا جاتا ہے۔ علامتی افسانہ اس لیے زیادہ مقبول نہیں ہو سکا کہ یہ زیادہ عام فہم نہیں تھا۔
جدید افسانے کا آغاز 1955ء میں ہوا اور باقاعدہ علامتی افسانہ کی ابتدا 1960ء کے لگ بھگ پاکستان میں انتظار حسین، خالدہ حسین، انور سجاد اور ہندوستان میں جوگندر پال اور سر پندر پرکاش کی معرفت ہوئی۔
تحریر: آکاش علی مغل
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔
Follow us on